اِک میں ہی نہیں اُن پر قربان زمانہ ہے

جو رَبِِّ دو عالم کا محبوب یگانہ ہے

 

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے

زہرہ کا وہ بابا ہے حسنین کا نانا ہے

 

اُس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں

جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

 

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نامِ محمد پر

ہم نے کسی دن یوں بھی دُنیا سے تو جانا ہے

 

آؤ در زاہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن

ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانا ہے

 

ہوں شاہ مدینہ کی میں پشت پناہی میں

کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے

 

یہ کہہ کے در حق سے لی موت میں کچھ مہلت

میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے

 

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دِن جس نے

اِس اُمت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے

 

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا

بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے

 

ہر وقت وہ ہیں میری دُنیائے تصوُّر میں

اَے شوق کہیں اَب تو آنا ہے نہ جانا ہے

 

پُر نور سی راہیں ہیں گنبد پہ نگاہیں ہیں

جلوے بھی اَنوکھے ہیں منظر بھی سُہانا ہے

 

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رُو دادِ اَلم اپنی

جب اُن کا کہا خود بھی اَللہ نے مانا ہے

 

محرومِ کرم اِس کو رکھیے نہ سرِ محشر

جیسا ہے نصیر آخر سائل تو پُرانا ہے

 

الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ

وعلی الک واصحابک یا حبیب اللہ

 

 


2 Comments

Samir Mansuri · March 26, 2025 at 10:55 am

Subhanallah

    ahmadrazaashrafi753 · March 28, 2025 at 4:38 am

    جزاک اللہ

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *